پھر سے سر اُٹھا رہی ہے یزیدی فکر
پورے ہندوستان خاص کر اُودھ کی تاریخ میں یہ رویہ عام تھا کہ شیعہ، سنی اور
ہندو سب ساتھ مل کر نبی کریم کے نواسے کا ماتم بپا کرتے تھے۔ شیعہ برادران ماتم
مناتے، سنی حضرات سبیلے اور تازئے نکالتے اور ہندو برادران دائرے کے پیچھے پیچھے
چلتے۔ یہ مثال تھی یہاں کے بھائی چارہگی کے۔ لیکن افسوس اس بھائی چارہگی کو دشمن
کی نظر لگ گئی۔ اور اب دشمن نے آپس میں تفرقہ پھیلانا شروع کردیا۔ اس کی تازہ ترین
مثال یہی ہے کی لکھنئو میں شیعہ اور سنی کے درمیان فساد پھیلا رہے ہیں اور
مظفرنگرمیں ہندواورمسلمانوں کے درمیان۔
آج کل لکھنئو میں کچھ شر پسند عناصر نے فرقہ وارانہ تشدد پھیلانا شروع کر دیا
ہے۔ یہ فتنہ سازی کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ لکھنئو کئی سالوں سے ایسی شیطانی
سازشوں کا شکار رہا ہے۔ پچھلے سال بھی شر پسند عناصروں نے رات کو مختلف جگہوں پر
گمنام پرچے اور پوسٹر لگا کر تفرقہ پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ کبھی وہ شیعہ بن کے
سنیوں کے خلاف تفرقہ کی بات کرتے اور کبھی سنی بن کر شیعوں کے خلاف تفرقہ کی بات
کرتے تھے۔ جب آخر میں وہ ناکام ہونے لگے تو 8 محرم کو مومنوں پر مجلس سے فارغ ہوتے
وقت گولی کا نشانہ بنایا تھا۔

لیکن افسوس مسلمانوں کو اپنی آپسی اور گھریلو لڑائیوں سے فرصت نہیں ملتا۔ آج
مسلمان نمازمیں ہاتھ باندھنے اور کھولنے پرلڑ رہے ہیں لیکن دشمن ہاتھ کاٹنے کی
تیاری کر رہے ہیں۔
دوستوذراسا غورکریں کہ آج ہمیں آپس
میں لڑ تے ہوئے دیکھ کر نبی کریم کے دل پہ کیا گزر رہی ہوگی۔ لہذا سمجھ لیجئے کہ جس
نے آپ کو غمزدہ کیا ، گویا اُس نے اللہ کوغمزدہ کیا۔ اس کے علاوہ ہمیں اس بات
پرغورکرنی چاہئے کہ خلفاء راشدین نے اپنے دور میں کبھی بھی ان اختلافات کو لے کر
جنگ و جدال نہیں کی تو ہمیں کہاں سے اجاذت ملتی ہے کہ اُن کے نام پر آپس میں لڑائی
کریں؟ آیت اللہ سید علی خامنہٰ ی اور آیت اللہ سیستانی صاحب نے بھی صحابہ کرام کے
بارے میں بدکلامی کرنے سے سخت منع کیا ہے اور حال ہی میں عراق کے مشہور شیعہ عالم
آیت اللہ سیستانی نے اپنی ایک بیان میں یہ واضح کیا ہے کی اہل سنت ہمارے بھائی ہیں
اور میں شیعہ برادران سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنی مسجدوں سے پہلے اہل سنت
برادران کی مسجدوں کی حفاظت کریں۔ آج سے تقریبن 3 دہائی پہلے امام خمینی نے فرمایا
تھا کی اگرکوئی شخص شیعہ اورسنی کے درمیان تفرقہ کی بات کرے تو وہ نہ شیعہ ہے اور
نہ سنی بلکہ امریکا و اسرائیل کا ایجنٹ ہے۔ اُنہوں نے اُس وقت "لا شرقیہ ولا
غربیہ اسلامیہ اسلامیہ، لا سنیہ ولا شیعیہ اسلامیہ اسلامیہ" کا نعرہ بلند کر
کے ان مسلکی اختلافات کو نطفے میں ہی ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن افسوس اُن کی
اس انقلابی سوچ کو ہم نہ اُس وقت سمجھ سکے اور نہ آج۔
اس مرحلے پر مجھے شاعر مشرق، دور اندیش اور انقلابی سوچ کے مالک، علامہ
اقبالْ کی یاد آتی ہے ۔ اُن کو یہ بات اُس
وقت نظر آرہی تھی کہ دشمن، اسلام کے مختلف فرقوں کے بیچ تفرقہ ڈالے گا لہذا اُنہوں
نے اُس وقت ارشاد فرمایا تھا کہ:
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
اور یہ پیشن گوئی صد فیصد صحیح نکلی۔ آج دنیا کا کوئی بھی ایسا ملک نہیں جہاں مسلمان
ایک دوسرے کے خون کا پیاسا نہ ہو یا جہاں پراسلام کے مختلف فرقوں کے بیچ تفرقہ نہ
پھیلا ہو۔ اب تک کا منظریہ تھا کہ عراق اور پاکستان میں شیعہ سنی کا تفرقہ پھیلا
ہوا تھا لیکن اب یہ بیماری ہمارے ہندوستان میں بھی آپہنچی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ
یہی ہے کہ ہم اُس وقت کھڑے نہیں ہوئے جب عراق اور افغانستان میں یہ بیماری عروج پرتھی۔
آج مجھے یہ بات کہتے ہوئے شرم آرہی ہے کی بیشتر اسلامی ممالک کے خواص طبقہ
عوام کی فکر کرنے کے بجائے اپنی کرسی کی فکر میں ظالموں کا سہارا لینے لگے ہیں۔
چاہے وہ فلسظین کے مظلوموں کی بات ہو یا بحرین میں عوام کو کوچلنے کی بات ہو، شام میں
دہشت گردی کو فروغ دینے کی بات ہو یا دنیا کی کوئی اور جگہ ہو۔ ابھی کچھ دن پہلے
بندر بن سلطان نے امریکا سے یہ گزارش بھی کیا تھا کی امریکا شام پر حملہ کرے باقی
حملہ کا سارا خرچہ اُن کی اپنی حکومت اُٹھانے کے لئے تیارہے۔ ایسے شر پسند عناصر
کی وجہ سے دشمن کے ارادے اور بھی مظبوط ہو جاتے ہیں۔ اصل میں اندر کے دشمن باہر کے
دشمن سے خطرناک ہیں۔
لہذا دوستو اب کسی اور کے لئے نہ سہی کم از کم اللہ، رسول، اور قرآن کے واسطے آپس
میں لڑنا جگڑنا چھوڑ دو اور اپنی بقا کی فکر کرو۔ خدا اُس قوم کی حالت کو اُس وقت
تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی فکر نہ کرے۔ لہذا اپنی ذمہ داری سے بھاگنے کے
بجائے ذمہ داری کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ اسلام کے دشمن اپنی ذمہ داری بخوبی
انجام دے رہے ہیں اور پھر سے سر اٹھا رہی ہے یزیدی فکر۔